(ایجنسیز)
جنیوا ٹو میں ایران کی عدم شرکت کے باوجود جوہری معاہدے سے متعلق معاملات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا۔ امریکا سمجھتا ہے کہ شام کا مسئلہ اور جوہری معاملہ دونوں الگ الگ ہیں، یقینا ایران بھی سی طرح سمجھتا ہو گا۔ یہ بات امریکی دفتر خارجہ کی نائب ترجمان میری حرف نے اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کیا ہے۔
نائب ترجمان نے کہا ''جوہری معاملہ پر مذاکرات ایک چیز ہیں، جبکہ شام کے ایشو پر جنیوا ٹو میں ایران کے شرکت کر کے کوئی کردار ادا کر سکنے کی بحث بالکل ہی دوسری چیز ہے۔'' واضح رہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جنیواٹو میں شرکت کیلیے ایران کو دعوت دینے کے چوبیس گھنٹے بعد واپس لے لی تھی کہ اس پر سخت
ردعمل سامنے آیا تھا۔
نائب ترجمان نے کہا '' ہم اس پر بڑے واضح ہیں اس لیے جوہری معاملے پر مذاکرات کے دوران بھی شام کے معاملے پر مسلسل عدم اتفاق رہا، ہم سمجھتے ہیں اور غالبا ایرانی بھی سمجھتے ہیں کہ ان دونوں معاملات کو الگ رکھنا چاہیے۔''
تیس برسوں سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود ایران اور امریکا سمیت دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری معاملے میں ابتدائی معاہدہ 24 نومبر 2013 کو ممکن ہو گیا۔ جبکہ حالیہ مہینوں کے درمیان امریکا اور ایران کے درمیان رابطوں میں بھی بہتری ائی ہے۔
دونوں طرف بہتری کی خواہش موجود ہے اسی لیے ابتدائی معاہدے پر ایران نے عمل شروع کر دیا اور امریکا نے اس پر عاید پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔